اسپیس شپ ٹکڑے ٹکڑے : proxima centauri

 ہ پوری قابل مشاہدہ کائنات ہے۔ہم نے ابھی پوری کائنات کے 5 فیصد حصے کو بھی دریافت نہیں کیا ہے۔کائنات اس وقت لگ بھگ 13.8 بلین سال پرانی ہے۔ جب کہ پوری کائنات ایک کرہ ہے جس کا قطر 93 ارب نوری سال ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ قابل مشاہدہ "کائنات" 93 ارب نوری سالوں پر محیط ہے۔۔ جبکہ آج تک کسی انسان نے زمین سے 1.5 نوری سیکنڈ سے آگے جانے کی ہمت نہیں کی۔۔ جبکہ ہم کبھی بھی زمین سے پانچ نوری منٹ سے زیادہ دور نہیں جاسکتے۔ میں پانچ نوری سال کی بات نہیں کررہا، بلکہ پانچ نوری منٹ کی بات کررہا ہوں۔۔۔ جو 93 ارب نوری سال کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے ۔



لیکن اس سے بھی لچسپ اور حیرانکن بات یہ ہے کہ کاٸنات 96 فیصد ڈارک انرجی اور ڈارک میٹر پر مشتمل ہے۔جس کو ہم کسی بھی "ٹیلی سکوپ" سے دیکھ نہیں سکتے،، یعنی ہم پوری کوشش کرنے کے باوجود کاٸنات کا صرف چار 4 فیصد حصہ ہی دیکھ سکتے ہیں۔ رات کے وقت آسمان پر آپ صرف پانچ ہزار ستارے دیکھ سکتے ہیں۔۔ جبکہ ملکی وے کہکشاں میں ٹوٹل تقریبا چار سو 400 بلین ستارے موجود ہیں یعنی ہم اپنی ہی کہکشاں کے مکمل ستارے بھی دیکھ نہیں سکتے باقی کہکشاٶں کے ستارے اور سیارے معلوم کرنا تو دور کی بات ہے۔لیکن اس سے دلچسپ بات یہ ہے کہ سورج کے علاوہ باقی ستارے ہم سے اتنی دوری پر واقع ہیں کہ وہاں ناسا کی کوٸی بھی "ٹیکنالوجی" پانچ سو سالوں میں بھی پہنچ نہیں سکتی خواہ کتنی ہی تیز رفتار کیوں نا ہوں۔
یہ اسپیس شپ ٹکڑے ٹکڑے ہوجاۓ گا۔لیکن وہاں پہنچ نہیں پاٸے گا۔ کیوں کہ "سورج" کے بعد زمین کا قریب ترین ستارہ "proxima centauri" ہے۔۔ جو ہم سے تقریبا چار نوری سال کی دوری پر واقع ہے اور یہ فاصلہ طے کرنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ یہ فاصلہ ہم جدید ٹیکنالوجی اور خلاٸی گاڑیوں سے بھی cover نہیں کرسکتے۔۔ بعض دوست ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی کے بارے میں نہیں جانتے، دونوں "کائنات" میں موجود ہیں لیکن ہماری آنکھوں سے پوشیدہ ہیں، ڈارک میٹر روشنی کو منعکس نہیں کرتا۔۔۔ اس لیے ہم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔۔۔ ماہرین فلکیات کا ماننا ہے کہ کاٸنات میں 70 فیصد ڈارک انرجی اور 26 فیصد "ڈارک میٹر" پر مشتمل ہے۔ ڈارک میٹر کاٸنات کو جوڑے ہوٸے ہیں جب کہ ڈارک انرجی کاٸنات کے پھیلاٶ کو تیز کررہی ہے۔باقی چار فیصد مادہ اور توانائی ہے جو ہم دیکھ سکتے ہیں۔ یعنی ہم صرف چار فیصد کاٸنات کو ہی دیکھ سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!

Post a Comment

0 Comments