سنہرا سانپ
ہمارے گاؤں میں ایک بابا محمد علی تھا، 125 سال کا ہو کر 2010 میں فوت ہوا۔ ہمارے گھر کے پاس ہی اُس کا مکان تھا۔ ہم اُسے بابا مھندہ کہتے تھے۔ بابے مھندے میں اور بہت سی نیک عادتوں کے علاوہ ایک خصلت یہ تھی کہ اپنی دشمنی کبھی دوستی میں نہ بدلتا۔ کسی کے ساتھ ایک بار پھڈا ہو گیا تو ساری عمر اُسی میں کاٹ دیتا تھا۔ اُس کا سبب صاف تھا، یعنی سانپوں سے اُس کا یارانہ تھا۔ دُور دُور سے سانپ کے ڈسے آتے تھے اور اُس سے شفا پاتے تھے۔
میں چھوٹا سا تھا، تب تو کچھ خبر نہیں تھی کہ یہ کیا خوفناک عمل کرتا ہے مگر جب بڑے ہوتے گئے تو پتہ چلتا گیا۔ بابے مھندے کو سینکڑوں قسم کے سانپوں سے واسطہ پڑا اور فتح پائی۔ اُس نے جو کہانیاں اپنی زندگی کی سنائی ہیں وہ میں اپنی خودنوشت میں لکھوں گا کہ بہت دلچسپ ہیں لیکن آج یہاں اُس کا ایک واقعہ اپنی آنکھوں دیکھا سنا دوں۔
ہم چھوٹے چھوٹے ہوتے تھے۔ ہمارے گاؤں کے جنوب میں ایک مربع میل کا چھوٹا سا صحرا یا ریت کے ٹیلے کہہ لیں، وہ تھے۔ کسی وقت یہاں سے دریائے بیاس نکلتا تھا اور اب صرف ریت نکلتی تھی۔ صحرا کے خشک پودے یعنی عک اور دوسری جھاڑیاں بکثرت ہوتی تھیں اور ہم لڑکے بالوں کی ڈیوٹی ہوتی تھی کہ گھر کا چولہا جلانے کے واسطے وہ عک اور جھاڑیاں کاٹ کے لاؤ۔
ہم سکول سے فارغ ہوتے، گھر آتے، روٹی کھاتے اور چچازادوں سے مل کر سیدھے اِن ٹیلوں پر پہنچ جاتے۔ یہ ٹیلے کھیل کود میں بہت سہولت کار تھے۔ خرگوش، چوہے، سیہہ، سانپ اور دوسری ہزاروں بلیات یہاں ہوتی تھیں، جن کا شکار ہم کرتے پھرتے تھے اور ایندھن سمیٹتے تھے۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ ہم دو بھائی، علی اصغر (یہ 23 سال کی عمر میں ایکسیڈنٹ میں فوت ہو گیا تھا) اور میں اپنے دو چچا زادوں علی ارشد اور علی اختر کے ساتھ اِن ٹیلوں پر اودھم مچا رہے تھے اور ایک عک کے پودے کی جڑیں ریت سے نکال رہے تھے۔ یہ عک کی جڑیں سوکھ کر دوزخ کے ایندھن کی طرح جلتی ہیں اور بہت آگ دیتی ہیں۔
یہ جگہ ایک بڑے سے ریت کے ٹیلے کی چوٹی تھی۔ ہم ریت کھود کھود کر ہاتھوں سے اور لوہے کے رنبے سے نکالے جاتے تھے کہ ایک دم ایک شُوک سی ریت میں سے اُٹھی۔ ہم فوراً ڈر کر ایک جھٹکے کے ساتھ پیچھے ہٹے۔ تب ہماری عمریں دس سے 12 سال تھیں۔ شوک اتنی تیز اور ہولناک تھی کہ ہم باوجود روزانہ کی بلیات اور سانپ دیکھنے والے اُس وقت کانپ کے رہ گئے۔
تھوڑی ہی دیر میں دیکھا تو ایک نہایت زرد رنگ کا سانپ اُس میں سے نمودار ہو گیا۔ یہ سانپ مشکل سے ڈیڑھ فٹ کا ہوگا اور آدھا انچ موٹا تھا، لیکن اتنا سنہرا تھا کہ اللہ اللہ۔ سورج آسمان پر صاف چمک رہا تھا اور یہ سانپ اُس کی کرنوں میں اتنا سنہرا تھا کہ یوں لگتا سونا پھیلا ہوا ہے۔ سونے کے علاوہ اِس کا کوئی دوسرا رنگ نہیں تھا۔ ہم اِس سے کافی دُور ہو کر کھڑے ہوگئے۔ اِس طرح کا سانپ چونکہ پہلی بار دیکھا تھا اِس لیے حیران بہت ہوئے۔ اب سوچا کہ چلو اِسے مارتے ہیں۔ مَیں نے دُور سے ایک لکڑی اُٹھائی اور جونہی سانپ کی طرف بڑھا وہ ایسے اُوپر کی طرف اٹھا جیسے زمین پر نیزہ گاڑ دیا گیا ہو۔ اُس کی زردی میں پہلے سے بھی اضافہ ہو گیا۔ سانپ کی آنکھیں اُبل کر باہر کو نکل آئیں۔ یہ آنکھیں اتنی خوفناک تھیں کہ کبھی ایسی نہ دیکھی تھیں۔ مَیں جلدی سے پیچھے ہٹ گیا اور اندازہ لگا لیا کہ سانپ ہم سے کہیں زیادہ طاقتور اور تیز ہے لہذا اِس سے دُور ہی رہا جائے اور اِسے اِسی حالت میں چھوڑ دیا جائے۔
ہماری آنکھیں اُس سے دوچار نہیں ہو رہی تھیں۔ ہم نے سب کام وہیں چھوڑا اور گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔ مگر دل میں ہمارے ایک خوف بیٹھ گیا کہ اب اِس سانپ کے یہاں ہوتے ہوئے ٹیلے ہم سے چھوٹ جائیں گے۔ خالی ہاتھ گھر پہنچے تو والدہ نے ڈانٹا کہ ایندھن لے کر کیوں نہیں آئے۔ ہم نے سب واقعہ دوگنا بڑھا چڑھا کر سنایا، تب والدہ نے کانوں پر ہاتھ رکھوائے کہ آئندہ وہاں نہ جائیں۔ لیکن ہمیں چین کہاں پڑتی تھی ۔ ہمارے ٹیلے ہم سے چھُٹنا اچھا شگن نہیں تھا۔ اُسی وقت بھاگے بھاگے گئے، بابا مھندہ اپنی چارپائی پر بیٹھا تھا۔ اُس کی چارپائی پربہت صاف اور سفید چادر بچھی ہوتی تھی، تکیہ بھی سفید تھا اوریہ سب دودھ کی طرح روشن ہوتا تھا۔ ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ فوراً تمام واردات بابے مھندے کو سنا دی۔ بابے مھندے نے تمام واردات غور سے سُنی اور مجھ سے بار بار پوچھا، واقعی وہ بالکل سنہرا سانپ تھا اور دوسرا کوئی رنگ اُس میں شامل نہیں تھا؟ مَیں نے کہا: ’بابا جی مجھے تو کوئی اور رنگ اُس میں نظر نہیں آیا‘ اور میرے چچا زادوں نے بھی اِس بات کی تصدیق کر دی ۔
0 Comments