دنیا کا نظام کچھ اس طرح کا ہے، کہ ہر علم والے کے اوپر ایک علم والا ہے۔
یعنی ہر کوالٹی والے کے اوپر ایک اور ویسی ہی کوالٹی والا ہے۔
ہر کوالٹی کا ایک اپنا علم ہے۔
ہر احساس، ہر جذبے کی کچھ اپنی مخصوص سوچیں ہیں۔
مختلف انسانوں میں مختلف کوالٹیز کے مختلف درجات ہیں۔
ہر کوالٹی والا دو محاذوں پر آزمایا جا رہا ہے، ایک اپنی ہی کوالٹی جیسی کوالٹی والے کے مدمقابل آ کر، اور دوسرا اپنی کوالٹی کے برعکس کوالٹی والے کے مدمقابل آ کر۔
چونکہ ہر کوالٹی ایک علم ہے، اور ہر کوالٹی والا اس کا عالم ہے، تو بات عالم کی ہوتی ہے بس۔
پہلے کوالٹیز سے علم پیدا ہوتا ہے، اور پھر علم سے پروفیشنز پیدا ہوتے ہیں، اور پھر پروفیشنل علم بڑھتا اور پھلتا پھولتا ہے۔ جب تک کہ مزید کوالٹیز نہ پیدا ہو جائیں، اور ان کا اپنا ایک علیحدہ علم نہ پیدا ہو جائے، ایسے ہی چلتا رہتا ہے۔
ہر انسان کسی نہ کسی علم کا عالم ہے۔ کسی علم کا کل رواج تھا ، کسی کا آج ہے ، اور کسی کا کل ہو گا ۔
ہر عالم کو ایک تو اپنے ہی جیسے کسی دوسرے عالم کا سامنا ہوتا ہے، جو علم میں اس سے زیادہ یا کم ہوتا ہے، اور دوسرا کسی بیوقوف کا سامنا ہوتا ہے، جو یا تو اسی کوالٹی کی سب سے نچلی سطح پر ہوتا ہے، یا کسی اور کوالٹی کا عالم ہوتا ہے۔
ہم بیوقوف اس کو کہتے ہیں جو خود تو کسی سوچ کا مالک نہ ہو، لیکن اس کے پاس دوسروں کے علم کی معلومات ہوں، اور وہ انہیں جا بجا استعمال کر رہا ہو۔
بہرحال، جاننے اور نہ جاننے والے برابر نہیں ہوتے۔
انسان جوں جوں علم کے درجات طے کرتا جاتا ہے، وہ نچلے درجات والوں کو علم بیچنا شروع کر دیتا ہے۔ چاہے تو بدلے میں پیسے لے لے، چاہے تو عہدے لے لے، چاہے تو حکومت لے لے۔
تاجر، عہدیدار، حاکم۔
قارون، ہامان، فرعون۔
بزنس مین، بیوروکریسی، گورنمنٹ۔
یہ سب نہ جاننے والوں کو علم بیچتے ہیں۔
بیوروکریسی اور گورنمنٹ، شروع زمانے سے ہی بزنس مین کو لوٹتے آئے ہیں۔
جب کوئی ڈاکو گھروں کو لوٹتے لوٹتے محلے، اور پھر گاؤں، اور پھر شہر، اور پھر ملک لوٹنا شروع کرتا تھا، تو بزنس مین کو اپنی دولت زمین میں چھپانی پڑتی تھی۔
کبھی کبھی بزنس مین ان سے گٹھ جوڑ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، لیکن اکثر ناکام رہتا ہے۔
کہیں کہیں بزنس مین پیسوں سے بیوروکریسی اور گورنمنٹ کو خریدتا ہے، اور کہیں کہیں اپنی حمایت بیچ کر۔ کہیں کہیں یہ اپنے کٹھ پتلی حکمران کھڑے کرتا ہے، اور کہیں کہیں یہ خود سیاست دان یا حکمران کا روپ دھار کر حکومت پر قبضہ کر لیتا ہے۔
بزنس مین کی سب سے بڑی کامیابی یہ رہی ہے کہ اس نے جمہوریت متعارف کروا کر بیوروکریسی کو حکمرانوں سے علیحدہ کر لیا ہے، یا چھین لیا ہے۔
دنیا کو چلانے والے علوم، اور عالم یہ تین ہی ہیں۔ باقی سب ان کے انڈر آتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بندگی کا علم دے کر ان کے پاس بھیجتا رہا ہے،
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تاجر، عہدیدار، حاکم، بندگی کے علم کو بھی اپنے انڈر لے آتے ہیں۔ یہ ان کی ایسی وضاحت کرتے ہیں، کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی بندگی سے نکل کر پھر انہی کی بندگی میں الجھ جاتے ہیں۔
فرعون، ہامان، قارون کی مصیبت یہ تھی، کہ انہوں نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کے قابل ہی نہیں چھوڑا تھا۔ ان کے وقت اور ذہن کو اس قدر جکڑ لیا تھا، کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا سوچ ہی نہیں پاتے تھے۔
انہیں اللہ تعالیٰ کے ہونے، ساری کائنات کے مالک ہونے، ان کے خالق ہونے، ان کی موت کے بعد انہیں دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہونے کا یقین ہی نہیں آتا تھا۔
انہیں اچھے برے، ظالم معصوم، عقلمند بیوقوف، حیادار بے شرم، وغیرہ کی تمیز ہی ختم ہو چکی تھی۔
تخلیقی لوگ اگرچہ بزنس اور سیاست اور مذہب سے علیحدہ ہوتے ہیں، لیکن بزنس مین انہیں اپنے مقصد کے لئے استعمال کرتا آیا ہے، اور کرتا رہے گا۔
تخلیقی لوگوں میں کچھ لوگ سائنسدان ہوتے ہیں، جو آرٹس کی بجائے، سائنس میں تخلیق کرتے ہیں، اور انہیں کبھی سیاستدان اور کبھی تاجر استعمال کے لئے اچک لیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو دنیا کی چمک دمک میں پھنسنے سے محفوظ فرمائے ، آمین
0 Comments